دادا امیر حیدر
26 دسمبر 2023
دادا امیر حیدر
آج برصغیر کے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کےانقلابی رہنما دادا امیر حیدر کی برسی ہے۔ جن پر ہر انقلابی ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان برصغیر کے اس عظیم کمیونسٹ کو سرخ سلام پیش کرتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامریڈ جاوید احمد کی عمدہ تحریر انکی زندگی اور جدوجہد کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔
3 مارچ 1900ء کو راولپنڈی کے گاؤں کالیاں سیالیاں تحصیل گوجرخان کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ جس کا نام امیر حیدر رکھا گیا، آگے چل کر دادا امیرحیدر کے نام سے انقلابی رہ نما کے طور پر مقبول ہوا۔
دادا امیر حیدر ابھی پانچ سال کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور تنگ دستی کے ماحول میں بھی اس بچے کا ذہن کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے بہت بے تاب تھا۔
ابھی عمر بارہ سال کی تھی کہ گھر سے نکل کھڑا ہوا اور بغیر ٹکٹ سفر کرتا ہوا بمبئی پہنچ گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب جنگ عظیم اوّل شروع ہو چکی تھی اور بحری جہازوں میں جنگی اور دوسرا سامان دنیا کے مختلف حصوں میں لے جایا جا رہا تھا۔ وہ بھی ایک بحری جہاز میں کوئلہ دھونکنے کی ملازمت کرنے لگے۔
انھیں کئی ممالک میں جانے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ 1918ء میں ان کا جہاز امریکا پہنچا تو انھوں نے اس کی نوکری چھوڑ کر ایک امریکی جہاز میں ملازمت کر لی۔ انھیں امریکی شہریت بھی مل گئی۔ انھوں نے امریکا میں کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر تعلیم و تربیت کے لیے ماسکو چلے گئے۔
1928ء میں وہ امریکا واپس جانے کے بجائے ایک جرمن جہاز میں ملازمت کر کے واپس ہندوستان آ گئے۔ یہاں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی بار قید وبند کی مصیبتیں بھی جھیلیں۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا۔میرا دادا کے ساتھ کام کرنے کا دورانیہ 1968ء سے 1978ء تک رہا۔ جب وہ گاؤں میں سکول قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ہماری اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ شاید اپنی زمین پر سکول قائم کرنا ان کے خون میں شامل تھا۔
اس سے قبل 1958ء میں دو کمروں پر مشتمل ایک سکول قائم کیا تھا اور خود انتہائی گہرے برساتی نالے سے پتھر اُٹھا کر لاتے رہے۔ سکول کی تعمیر کے بعد انھوں نے کمیونسٹ پارٹی سے درخواست کی کہ پارٹی کے ایک استاد کو یہاں بجھوایا جائے، جو باقاعدگی سے تعلیم دے سکے۔
پاکستان کے بائیں بازو کے ممتاز رہ نما عابد حسن منٹو کے بڑے بھائی جو کہ راولپنڈی میں رہتے تھے،وہ اکثر محنت کشوں کے لیے مالی امداد بھی فراہم کرتے تھے اور ان کے بقول اس وقت پارٹی کا آفس نشاط سینما راولپنڈی کے قریب ہوتا تھا۔ اور عابد حسن منٹو سائیکل پر گھر گھر پارٹی کا اخبار پہنچاتے تھے۔ میری خالد منٹو صاحب سے صدر میں واقع ان کی دکان پر اکثر ملاقاتیں رہیں۔
ایک دفعہ میں نے ڈپٹی سیکرٹری غالب سے ان کا تعارف کرواتے ہوئے ان کے بارے میں کہا کہ یہ عابد حسن منٹو کے بھائی ہیں۔ تو انھوں نے فوراً مجھے ٹوکتے ہوئے کہا: " نہیں عابد میرا بھائی ہے۔" ایوب خان کا مارشل لاء لگنے کے بعد کالیاں میں ایک دن فوجی جیپ آئی،جس کے سوار سکول گرانا چاہتے تھے۔
ایوب کے دور میں مکمل طور پر پاکستان امریکی کیمپ میں جا چکا تھا۔ دادا کی بہن بخت بی بی جو کہ بکریاں چراتے ہوئے پوٹھوار میں ایک کلھاڑی اپنے پاس رکھتے ہیں، اس کو لہراتے ہوئے فوجی کیپٹن کے سامنے آ گئی کہ " یہ میرے بھائی کا سکول ہے، جسے کوئی نہیں گرا سکتا۔جو آگے آیا اس کی گردن اُڑا دوں گی۔" فوجی یہ دیکھ کر چلے گئے اور چند دنوں کے بعد ایک تاریک رات کو کمانڈو ایکشن کرتے ہوئے اس سکول کی اینٹیں بھی اُٹھا کر لے گئے۔
دادا اکثر ہمارے ٹریڈ یونین کی تنظیم متحدہ مزدور محاذ کے دفتر واقع مری روڈ راولپنڈی میں آتے تھے۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ غالباً یکم مئی 1975ء کو راولپنڈی پریس کلب میں جو جلسہ منعقد کیا گیا تھا اس کی صدارت دادا امیر حیدر نے کی جب کہ مجھے نظامت کے فرائض ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس موقع پر دادا امیر حیدر نے اپنی تقریر میں بے شمار باتیں کیں مگر مجھے جہاں تک یاد ہے انھوں نے بیسویں صدی کے حوالے سے کہا کہ اس کے دو بڑے واقعات ہیں جو 1917ء کا سوویت انقلاب اور اس کے بعد ویت نام میں امریکیوں کی شکست فاش۔
راولپنڈی کے ممتاز ماہر تعلیم گارڈن کالج کے پرنسپل خواجہ مسعود اور بازو کے رہ نماجس طریقے سے دادا کی تکریم کرتے تھے، اس پر رشک آتا تھا۔
دادا اکثر مری روڈ پر پیدل جاتے نظر آتے۔ ڈاکٹر ایوب مرزا وہاں سے گزرتے تو انھیں انتہائی احترام کے ساتھ اپنی گاڑی میں چھوڑ آتے۔ 80 کی دہائی میں کویت آنے کے بعد ایک طویل عرصے کے بعد ایک اچھی خبر ملی کہ پاک چین دوستی فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے سربراہ ممتاز دانش ور ڈاکٹر ایوب مرزا نے دادا کے بارے میں ایک سوانحی ناول لکھا جس کا نام " دامِ موج" ہے.
فیض صاحب کے راولپنڈی میں قیام کے دوران ایوب مرزا ہی ان کے ڈرائیور و غم گسار ہوتے تھے۔ انھوں نے بعد میں دو اور مشہور کتابیں "فیض نامہ" اور" ہم کہ ٹھہرے اجنبی" بھی لکھیں۔1989ء میں جب دادا کا انتقال ہوا تو اس وقت ہم کویت میں تھے ۔دو اگست 1990ء کو کویت پر عراق کے قبضے کے بعد جب ہمیں یہاں سے نکلنا پڑا تو ہم سترہ روز گاڑی چلاتے ہوئے کویت سے عراق، ترکی، ایران ہوتے ہوئے پاکستان پہنچے۔
پاکستان میں اپنے قیام کے ایک سال کے دوران دو قبروں پر حاضری دی جن میں پوٹھوہار کے عظیم فرزند دادا امیر حیدر کی قبر پر جہانگیر اختر کے ہم راہ پھولوں کا نذرانہ پیش کیا اور دوسرا اپنی والدہ ماجدہ کی قبر پر اسلام آباد کے قبرستان میں حاضری دی۔اسی دوران معلوم ہوا کہ آخری دنوں میں انھیں اس بات کا بہت قلق تھا کہ انھوں نے بڑی جدوجہد کے بعد ایک نوجوان کو ڈاکٹری کی تعلیم کے لیے ماسکو بھیجا کہ وہ واپس آ کر ان کے علاقے میں خدمات انجام دے گا مگر وہ نوجوان ڈاکٹر شہر کی رنگینیوں سے پیچھا نہ چھڑا سکا۔
وفات سے قبل وہ اپنی قبر کا کتبہ یا وصیت تحریر کرواچکے تھے ۔
اسلام آباد کے ساتھیوں کی اطلاع کے مطابق دادا کی وفات کے دن سخت بارش تھی۔اس شدید بارش کے باوجود کئی غیرملکی رفقا ان کی تدفین میں شامل ہوئے اور انھیں انھی کے قائم کردہ سکول کے احاطے میں ہی دفن کیا گیا۔
اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کے اخبار "پیٹریاٹ" والوں نے ان کے بارے میں پہلی کتاب شائع کی۔
اسی دوران ہمارے ایک دوست نسیم احمد کے کے بھائی دہلی جا رہے تھے، تو خواجہ مسعود کے لیٹر کے ذریعے ان سے یہ کتاب منگوائی گئی۔
1991ء میں دادا کی برسی منائی گئی۔
میں نے کویت کے ساتھی نعیم مرزا کے ہم راہ اس میں شرکت کی۔ جہاں ایک طویل عرصے کے بعد پرانے ساتھیوں نظیر مسیح اور ظہیر رضوی سے بھی ملاقات ہوئی۔
اس اجلاس میں جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد کے تمام ترقی پسند کارکنوں کے علاوہ پوٹھوہار کی تاریخ پر اتھارٹی رکھنے والے دانش ور افضل پرویز اور مہمان خصوصی عوامی نیشنل پارٹی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اجمل خٹک تھے۔
ان سے شاید آخری ملاقات تھی۔ جنھوں نے دادا کے بارے میں انگریزی کتاب کا ترجمہ کرنے کے وعدہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ " اگر صحت نے اجازت نہ دی تو میرا بیٹا یہ کام کرے گا۔"
اسی دوران پروفیسر حسن گردیزی (کینیڈا والے) سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ کویت میں کام کرنے والے افتادگان خاک کے مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اور بعد میں کراچی یونی ورسٹی کے پروفیسر جعفر احمد نے دادا امیر حیدر کے بارے میں انگریزی میں دو جلدیں شائع کیں تو دل باغ باغ ہو گیا۔۔ کامریڈ اعز عزیزی کی کتاب پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کے ابتدائی جانثار ۔۔ ۔۔"رفیقان صدق وصفا" جو کہ تقریبا 33 ترقی پسند شخصیت کے خاکوں پر مشتمل ہے اس کے حصہ دوم کا پہلا خاکہ کامریڈ دادا امیرحیدر کے عنوان سے شامل ہے 184 صفات پر مشتمل یہ کتاب سانجھ پبلی کیشن نے 2016 میں شائع کی۔کامریڈ اعز عزیزی کے بیٹے سید احمر عزیزی نے خلوص دل کے ساتھ پاکستان کے ممتاز خاکہ نگار شاہد حنائی کے ذریعے کتاب ہمیں کراچی سے کویت بھجوائی جس کے لئے ہم انکے شکر گزار ہیں۔
دادا پر جو چند کالم لکھے گئے ان میں سب سے پہلےلکھنے والوں میں مولانا کوثر نیازی، احمد ندیم قاسمی، نذیرناجی، منو بھائی، اور محترمہ زاہدہ حنا شامل ہیں۔
پروفیسر جعفر احمد سے ایک دفعہ فون پر بات بھی ہوئی تھی ۔ مذکورہ کتاب کے اردو کے ترجمے کا انتظار ہے۔
بیسویں صدی کے عوامی شاعر حبیب جالب اپنی " کتاب جالب بیتی" کے صفحہ 66 پر رقم طراز ہیں۔
" دادا امیر حیدر جو بہت بڑے کمیونسٹ لیڈر تھے انھوں نے کچھ دن امریکا میں بھی کام کیا تھا۔ دلی اور بمبئی میں بھی رہے۔ بمبئی میں تو ایک جگہ" امیر حیدر ہال"ان کے نام سے موسوم ہے۔ وہ میرے بڑے سرپرست تھے، مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی زمین ایک سکول کے لیے وقف کر دی تھی اور خود تمام زندگی اپنے نظریات کے ساتھ گزاری۔ انھوں نے کبھی کوئی وظیفہ گورنمنٹ سے نہیں لیا ۔فیض صاحب اور ایوب مرزا نے ان کو وظیفہ دلانے کی کوشش کی تھی لیکن انھوں نے انکار کر دیا"۔
پاکستان کے ہر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے والے اور ہر حکمران کے دور میں جیل جانے والے والے سب سے بڑے مزاحمتی شاعر حبیب جالب نے دادا امیر حیدر کے بارے میں یہ کہا۔
دادا امیر حیدر۔
نہیں ہیں کوئی بھی داغ سجدہ تری جبیں پر
ڈٹا رہا عرصہ وفا میں تو زندگی بھر
کھڑے ہیں ساحل پہ ہم سمندر کا تو شناور
میں اپنی عزت بڑھا رہا ہوں تیرے لیے چند شعر کَہ کر
عظیم دادا امیر حیدر عظیم دادا امیر حیدر
عذاب ہے اپنی سادہ لوحی
لبوں پہ رہتی ہے بات دل کی
زمانہ کہتا ہے اُس کو مانوں
منافقوں میں گھرا ہوا ہوں
کدھر سے نکلوں میں ان سے بچ کر
عظیم دادا امیر حیدر عظیم دادا امیر حیدر
زبان و دل مختلف نہیں ہیں
کہاجو تُو نے وہی کیا ہے
کہاں کوئی اس طرح جیاہے
کہاں کوئی باضمیر تجھ سا
تُو وہ نَوا ہے دبا نہ پایا
جسے جہاں میں ستمگر کوئی
عظیم دادا امیر حیدر عظیم دادا امیر حیدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تقریباً بتیس سال کے بعد چند ساتھیوں عمران یونس، ڈاکٹر جاوید اختر رانا، عابد علی، ممتاز احمد آرزو اور جمال ناصر کے ہمراہ برصغیر کے ممتاز اور غیر متنازعہ کمیونسٹ رہنما دادا امیر حیدر(1904-1989) کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کاہلیاں روانہ ہوا کہ روات کے قریب جمال ناصر کی گاڑی کا موڈ خراب ہو گیا کچھ دیر علاج کرانے کے بعد روانہ ہوئے تو کلرسیداں کے پاس اسے دوبارہ دورہ پڑا۔ خراب سڑک کی وجہ سے انہیں واپسی کا مشورہ دیا تاہم عمران یونس کی رہنمائی میں ہم نے سفر جاری رکھا ۔۔ گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد نعیم اور ان کے دو ساتھی جو کہ چھٹی کے بعد گھر جا رہے تھے ہمیں دیکھ کر رک گئے ان کا خلوص قابلِ رشک تھا۔ چائے کے دوران ان سے دادا اور اسکول کی صورتحال پر خاصی دلچسپ گفتگو رہی۔۔ دادا جو کہ اپنے ہی قائم کردہ اسکول کے احاطے میں دفن ہیں ان کی یادگار پر پھول رکھے اور انہیں سیلوٹ کیا ۔۔ ان کی قبر پر کھڑے ہوکر چند قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔۔ 1.مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دادا امیر حیدر کی قبر ،سکول سمیت ان کے شایان شان ایک قومی یادگار تعمیر کی جائے۔۔ 2.پنجاب حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کاہلیاں سے روات تک سڑک کا نام شاہراہ دادا امیر حیدر رکھا جاے۔
3. قائد اعظم یونیورسٹی میں دا دا امیر حیدر چئیر قایم کی جائے۔۔ ساتھیوں کو اپنی خواہش بتائ کہ کہ میں ہر سال راول پنڈی میں پوٹھوہار کے ادیبوں،شاعروں اور فنکاروں کے ہمراہ دادا امیر حیدر میلہ منعقد کرنا چاہتا ہوں۔۔ جس میں دانشور دادا امیر حیدر اور پوٹھوہار پر اپنے مقالے بھی پیش کریں گے۔ساتھی فہد رضوان بیماری کی وجہ سے ہم رکاب نہ ہو سکے۔
26 ديسمبر 2023 دادا امير حيدر اليوم هو ذكرى وفاة دادا أمير حيدر، الزعيم الثوري للحزب الشيوعي الباكستاني. وهو الأمر الذي سيفتخر به كل ثائر دائمًا. إن الحزب الشيوعي الباكستاني يحيي هذا الشيوعي العظيم في شبه القارة الهندية .. .. .. .. . . . . . . . . تغطي كتابات الرفيق جافيد أحمد الممتازة حياته وكفاحه بشكل كامل. (بعض الذكريات بعض الأشياء) ولد في 3 مارس 1900، في عائلة فقيرة في قرية كاليان سياليان، تهسيل جوجارخان، روالبندي، أصبح الطفل الذي يُدعى أمير حيدر مشهورًا كقائد ثوري باسم دادا أمير حيدر. كان دادا أمير حيدر يبلغ من العمر خمس سنوات فقط عندما ارتفع ظل والده من رأسه، وحتى في بيئة ضيقة اليد، كان عقل هذا الطفل حريصًا جدًا على فعل شيء ما والمضي قدمًا. كان يبلغ من العمر اثني عشر عامًا فقط عندما غادر منزله وسافر بدون تذكرة إلى بومباي. كان هذا هو الوقت الذي بدأت فيه الحرب العالمية الأولى وتم نقل الحرب والبضائع الأخرى في السفن إلى أجزاء مختلفة من العالم. كما حصل على وظيفة كمدخن للفحم في سفينة. أتيحت له الفرصة لزيارة العديد من البلدان. وحتى في عام 1918، عندما وصلت سفينته إلى أمريكا، ترك وظيفته وحصل على وظيفة في سفينة أمريكية. كما حصل على الجنسية الأمريكية. شارك بنشاط في أنشطة الحزب الشيوعي في أمريكا ثم ذهب إلى موسكو للتعليم والتدريب. وفي عام 1928، بدلاً من العودة إلى أمريكا، عاد إلى الهند للعمل في سفينة ألمانية. وبسبب أنشطته هنا تعرض للسجن عدة مرات. واستمر هذا المسلسل حتى بعد قيام باكستان، وكانت فترة العمل مع جدي من عام 1968 إلى عام 1978. عندما كان يكافح من أجل إنشاء مدرسة في القرية. كان لدينا اجتماعات متكررة. وربما كان في دمه إنشاء مدرسة على أرضه. وقبل ذلك، أنشأ مدرسة من غرفتين في عام 1958 وكان بنفسه يجلب الحجارة من بالوعة الأمطار العميقة. بعد بناء المدرسة، طلب من الحزب الشيوعي إرسال مدرس حزبي إلى هنا، يمكنه التدريس بانتظام. غالبًا ما كان الأخ الأكبر للزعيم اليساري الباكستاني البارز عابد حسن مانتو، الذي عاش في روالبندي، يقدم المساعدة المالية للعمال ووفقًا له، كان مكتب الحزب في ذلك الوقت بالقرب من نيشات سينما روالبندي. وكان عابد حسن مانتو يوصل صحيفة الحزب من باب إلى باب على دراجته. لقد عقدت اجتماعات متكررة مع السيد خالد مانتو في متجره في سادار. ذات مرة قدمته إلى نائب الوزير غالب وقلت عنه إنه شقيق عابد حسن مانتو. فوبخني على الفور وقال: لا عابد هو أخي. بعد فرض الأحكام العرفية لأيوب خان، جاءت سيارة جيب عسكرية ذات يوم إلى كاليان، وأراد شاغلوها هدم المدرسة. وفي عهد أيوب، كانت باكستان قد ذهبت بالكامل إلى المعسكر الأمريكي. ولوحت أخت دادا بخت بيبي، التي تحتفظ بفأس في بوثوار بينما كانت ترعى الماعز، به أمام قائد الجيش قائلة: "هذه مدرسة أخي، التي لا يستطيع أحد أن يهدمها. سوف أضرب رقبتي". رأى الجنود ذلك، وبعد بضعة أيام، في ليلة مظلمة، وفي عملية كوماندوز، قاموا أيضًا برفع أحجار هذه المدرسة. كثيرًا ما كانت الدادائية تأتي إلى مكتب منظمتنا النقابية المتحدة مازدور ماهاز في طريق موري روالبندي. وربما كان لي شرف رئاسة الاجتماع الذي عقد في نادي الصحافة في روالبندي في الأول من مايو/أيار 1975 عندما ترأس الدادائية أمير حيدر الاجتماع. شرف أداء واجبات نظامت. وبهذه المناسبة قال الدادائي أمير حيدر في كلمته أشياء كثيرة، لكن على ما أذكر، قال فيما يتعلق بالقرن العشرين إن فيه حدثين رئيسيين، وهما الثورة السوفييتية عام 1917 وما تلاها من هزيمة الأمريكان في فيتنام . مُعرض ل خواجة مسعود، مدير كلية جاردن، وهو معلم بارز في روالبندي، وكان والد بازو يكرم الدادائية بطريقة جعلته يشعر بالغيرة منه. غالبًا ما كان يُرى الدادائية وهو يسير على طريق موري. وكان الدكتور أيوب ميرزا يتركه في سيارته بكل احترام عند مروره. وبعد فترة طويلة من قدومه إلى الكويت في الثمانينات، جاءت أخبار سارة مفادها أن المفكر البارز الدكتور أيوب ميرزا، رئيس جمعية الصداقة الباكستانية الصينية، كتب رواية عن السيرة الذاتية للدادائية بعنوان "سد الموج".
أثناء إقامة فايز صاحب في روالبندي، اعتاد أيوب ميرزا أن يكون سائقه ومعزيه. وفي وقت لاحق، كتب أيضًا كتابين آخرين مشهورين هما "فايز ناما" و"هم كيه أوثاي أجري". في عام 1989، عندما توفي دادا، كنا في الكويت. بعد احتلال العراق للكويت في 2 أغسطس 1990، عندما اضطررنا إلى ذلك غادر هنا، سافرنا لمدة سبعة عشر يومًا من الكويت، مرورًا بالعراق وتركيا وإيران ووصلنا إلى باكستان.
وخلال سنة من إقامته في باكستان، زار قبرين، حيث قدم الزهور لجهانجير أختار عند قبر الجد أمير حيدر الابن الأكبر لبوطوهر، والثاني عند قبر والدته ماجدة، في مقبرة إسلام آباد، وفي الوقت نفسه، علم أنه في الأيام الأخيرة كان قلقًا جدًا من أنه بعد صراع كبير، أرسل شابًا إلى موسكو لدراسة الطب، ليعود ويخدم في منطقته، لكن ذلك الشاب لم يستطع الطبيب أن يبتعد عن سكان المدينة الملونين.
قبل وفاته، كان قد كتب شاهد قبره أو وصيته.
وبحسب معلومات زملاء في إسلام أباد، فقد هطلت أمطار غزيرة يوم وفاة الجد، ورغم هذه الأمطار الغزيرة، شارك العديد من الأصدقاء الأجانب في جنازته ودُفن في مبنى المدرسة التي أنشأها.
وفي الوقت نفسه، نشرت صحيفة الحزب الشيوعي "باتريوت" أول كتاب عنه.
في هذه الأثناء، كان شقيق أحد أصدقائنا نسيم أحمد ك.ك. متجهًا إلى دلهي، لذلك تم طلب هذا الكتاب منه عبر رسالة خواجة مسعود.
تم الاحتفال بذكرى وفاة دادا في عام 1991.
حضرت مع زميلي الكويتي نعيم ميرزا. حيث التقى أيضًا بعد فترة طويلة بزميليه القدامى نذير مسيح وزهير رضوي.
في هذا الاجتماع، وبصرف النظر عن جميع النشطاء التقدميين في المدينتين التوأم روالبندي وإسلام آباد، كان أفضل برويز، وهو خبير في تاريخ بوتوهار، وأجمل خاتاك، الأمين العام لحزب عوامي الوطني، ضيفين خاصين.
ربما كان هذا هو اللقاء الأخير معه. الذي وعد بترجمة كتاب باللغة الإنجليزية عن الدادائية، مضيفًا أنه "إذا لم تسمح الصحة بذلك، فسيقوم ابني بذلك".
وفي الوقت نفسه، كان هناك أيضًا لقاء مع البروفيسور حسن جارديزي (من كندا). أرادوا التعرف على مشاكل الغبار الذي يعمل في الكويت. وبعد ذلك نشر البروفيسور جعفر أحمد من جامعة كراتشي مجلدين باللغة الإنجليزية عن دادا أمير حيدر، ثم أصبح ديل باغ باغ. كتاب الرفيق عزيز عزيزي، جانيزار الحركة الشيوعية في باكستان المبكر. "رفيقان صادق وصافة" والذي يتكون من حوالي 33 رسمة شخصية تقدمية، الرسم الأول من الجزء الثاني يندرج تحت عنوان الرفيق دادا أمير حيدر، هذا الكتاب الذي يحتوي على 184 سمة صدر عن دار نشر سانجه عام 2016. سيد أحمر عزيزي، الابن عزيزي عزيزي، أرسل لنا الكتاب من كراتشي إلى الكويت عن طريق رسام الكاريكاتير الباكستاني البارز شهيد هناي، ونحن ممتنون له على ذلك.
ومن بين الأعمدة القليلة التي كتبت عن الدادائية، كان مولانا كوثر نيازي، وأحمد نديم قاسمي، ونذير ناجي، ومانو بهاي، والسيدة زاهدة هينا أول من كتب.
لقد تحدثت ذات مرة مع الأستاذ جعفر أحمد عبر الهاتف. في انتظار الترجمة الأردية للكتاب المذكور.
وقد ذكر حبيب غالب، وهو شاعر شعبي من القرن العشرين، الأبراج في الصفحة 66 من كتابه "كتاب غالب بيتي".
"دادا أمير حيدر، الذي كان زعيمًا شيوعيًا عظيمًا، عمل أيضًا في أمريكا لبضعة أيام. كما أقام في دلهي وبومباي. وهناك مكان في بومباي يسمى "قاعة أمير حيدر" نسبةً إليه. لقد كان معلمي العظيم. "أحبني كثيراً. كرس أرضه لمدرسة وعاش حياته كلها مع مُثُله. لم يأخذ أي راتب من الحكومة. أعطاه فايز صاحب وأيوب ميرزا راتباً. حاولوا لكنهم رفضوا".
حبيب غالب، الشاعر المقاوم الأكبر الذي قال الحقيقة أمام كل حاكم في باكستان ودخل السجن في عهد كل حاكم، قال هذا عن دادا أمير حيدر.
دادا امير حيدر
لا توجد بقع على الفكين السجود
البقاء وفيا مدى الحياة
واقفين على الشاطئ، ونحن نطفو في البحر
أنا أزيد شرفي بقول بعض القصائد لك
الجد الأكبر أمير حيدر الجد الأكبر أمير حيدر
الموت هو سذاجتك
وتبقى كلمات القلب على الشفاه
الوقت يقول أن تصدقه
أنا محاط بالمنافقين
أين يمكنني الهروب منهم؟
الجد الأكبر أمير حيدر الجد الأكبر أمير حيدر
اللسان والقلب لا يختلفان
قال ما فعلت
أين عاش أي شخص مثل هذا؟
أين من لديه ضمير مثلك؟
أنت الجديد
ومن أعاني
الجد الأكبر أمير حيدر الجد الأكبر أمير حيدر
..
بعد ما يقرب من اثنين وثلاثين عامًا، قمت مع عدد قليل من الزملاء عمران يونس، والدكتور جاويد أختار رنا، وعابد علي، وممتاز أحمد أرزو، وجمال ناصر، بتكريم دادا أمير حيدر (1904-1989)، الزعيم الشيوعي البارز بلا منازع للحزب الشيوعي. شبه القارة الهندية غادر كاليان لأن سيارة روات جمال ناصر كانت في حالة مزاجية سيئة بالقرب منها. وقد نصحه بالعودة بسبب سوء الطريق، ولكن بتوجيه من عمران يونس واصلنا رحلتنا. توقف محمد نعيم مدير المدرسة الثانوية الحكومية وزميليه، الذين كانوا في طريقهم إلى المنزل بعد العطلة، لرؤيتنا وكان صدقهم يحسد عليه. أثناء تناول الشاي، دارت معه مناقشة مثيرة للاهتمام حول الدادائية ووضع المدرسة. دادا، الذي دفن في مبنى المدرسة التي أسسها، وضع الزهور على نصبه التذكاري وألقى التحية. وتمت الموافقة على بعض القرارات بالإجماع أثناء وقوفه على قبره. 1. نطالب الحكومة المركزية ببناء نصب تذكاري وطني على شرفه بما في ذلك قبر الدادا أمير حيدر المدرسة. 2. مطالبة حكومة البنجاب بتسمية الطريق من كاليان إلى روات باسم شهره دادا أمير حيدر.
3. ينبغي إنشاء كرسي دا دا أمير حيدر في جامعة القائد الأعظم. أخبر أصدقائي أنني أرغب في تنظيم دادا أمير حيدر ميلا كل عام في روالبندي مع الكتاب والشعراء والفنانين من بوتوهار. وسيقدم فيها أيضا المثقف الدادا أمير حيدر وبوتوهر أوراقهما، ولم يتمكن زميلنا فهد رضوان من الحضور بسبب المرض.
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق