جاري تحميل ... مدونة نور الدين رياضي للعمل السياسي والنقابي والحقوقي

أخبار عاجلة

إعلان في أعلي التدوينة

نیپال میں عوامی بغاوت کے اسباب . امداد قاضی *أسباب الانتفاضة الشعبية في نيبال بقلم: امداد قاضي

 نیپال میں عوامی بغاوت کے اسباب .

امداد قاضی
نیپال میں عوام خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے حکومت کے خلاف احتجاج اور پارلیمان ، وزیراعظم ہاؤس کو آگ لگا کر اس نظام سے نفرت اور اسے گرانے کے عمل کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس نظام کو سمجھا جائے کہ نظام کونسا تھا جس کو شکست ہوئی اور عوام نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا . خاص طور پر ان لوگوں کو یہ ضرور سمجھنا چاہیے جو بغلیں بجا رہے ہیں کہ کمیونزم ناکام ہو گیا. اقتدار میں تو یقینا" کمیونسٹ ہی تھے . لیکن وہ کس نظام کو چلا رہے تھے ، وہ کون سا نظام تھا جس کے خلاف عوام نے بغاوت کی ہے .
1. بادشاہت کو شکست دینے کے بعد کمیونسٹ پارٹی (ماؤسٹ یا یونیفائیڈ ) نے وہی پارلیمانی نظام مروج کیا جو بادشاہ کی موجودگی میں تھا ۔ یعنی جس پارلیمانی نظام نے عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت دی تھی ، جس نظام کو عوامی بغاوت سے گرا کر شکست دے کر نیا سیاسی نظام قائم کرنا تھا ،اس کے بجائے صرف بادشاہ کو ہٹاکر نئے آئین میں پارلیمان کو مزید اختیارات دے کر اسی نظام کو تھوڑی بہت پالش کر کے مروج کیا گیا ۔ عوام کی نظر میں بادشاہ کے بغیر نئی پارٹیوں کی قیادت میں پرانا نظام ہی قائم رہا . نیپال میں پہلے بھی قبائیلی نظام موجود تھا ، جس میں تھوڑی رینوویشن کی گئی . نہ تو صنعتی پیداوار کو بڑھایا گیا اور نہ ہی سوشلسٹ یا عوامی جمہوری انقلاب کی اصل قوت مزدور طبقے کو بڑھایا گیا ۔ اب بھی جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ بمع بجلی کی پیداوار کے 14 في صد اور ٹوٹل ورک فورس کا 15.1 فی صد صنعت سے وابستہ ہے . زراعت بمع فشریز اور لائیو اسٹاک کے جی ڈی پی میں حصہ 25 فی صد اور ٹوٹل ورک فورس کا 60.64 فی صد زراعت میں مصروف ہے . سروسز سیکٹر میں5.20 صد ہے . سوال تو یہ بھی ہے کہ ماقبل سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ داری کا سیاسی نظام مروج ہو سکتا یے؟
2 . مابعد نوآبادیاتی نظام کے شکار اکثر ممالک کی طرح شاہ کے زمانے میں بھی معاشی نظام سرمایہ دارانہ تھا ، اور سماجی ڈھانچہ ماقبل سرمایہ دارانہ اور شاہ پرست نیپالی کانگریس پارٹی اسے قائم کیئے ہوئی تھی ۔ یہ معاشی نظام جو عوام کی سماجی معاشی ترقی میں رکاوٹ تھا ، اس تضاد کے بنیاد پر کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کے مختلف دھڑوں نے عوام کو منظم کر کے شاہ اور اس کے حواریوں کے خلاف انقلاب بپا کیا تھا . اس انقلاب کو 20 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا لیکن نظام میں تبدیلی نہیں آئی . الٹا منصوبہ بند معیشت کی قوتوں کی قیادت میں نیو لبرلزم کی معاشی پالیسیاں نافذ رہیں ، اس کا نتیجہ ایک اور عوامی بغاوت کی صورت میں سامنے آنا یقینی تھا . سماج میں موجود بنیادی تضاد نہ صرف پہلے کی طرح قائم رہا ، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو بد عنوانی اور اقربہ پروری اپنے جوہر میں ہوتی ہے ، وہ نہ صرف قائم رہی بلکی بڑھتی گئی . اسی نے دیمک کی طرح پورے نظام کو کھوکھلا کر دیا ۔ اس سے فرق کیا پڑتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومتیں ہیں ۔ نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے آیا ہے . یعنی یہ سرمایہ دارانہ سیاسی و معاشی نظام کی ناکامی ہے جس کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی ہے . یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس تضاد کو بیرونی عوامل نے تیز اور منظم کیا ہو . کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان 2023میں اپنی کانگریس کے دستاویز میں اس کا تفصیلی جائزہ لیکر نیپال میں کمیونسٹوں کی حکومتوں اور ان کی طرف سے قائم نظام کا تنقیدی جائزہ لیکر پیش بندی کر چکے تھی کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ کس طرح ناکامی کا شکار ہوگا.
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ووٹ کے ذریعے مدے خارج سرمایہ دارانہ سیاسی نظام (پارلیمانی یا صدارتی جمہوریت) کے تحت اقتدار حاصل کر کے پرانی مشینری اور پرانے سیاسی نظام کے ذریعے ، سرمایہ دارانہ معاشی ڈھانچے میں رہتے ہوئے نظام کو تبدیل کر کے عوام کی زندگی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا . اس میں عوام کی خوشحالی اور استحصال کا خاتمہ ناممکن ہے . اس طرح سوشلزم کی تعمیر نہیں ہو سکتی . سوویت یونین میں رد انقلاب کے بعد اصلاح پسندوں ، سوشل ڈیموکریٹوں کو پروپیگنڈا کرنے اور اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کا موقعہ ملا اور بھانت بھانت کے نسخے لیکر سامنے آگئے . سرمایہ دارانہ نظام کے حمایتی دانشوروں نے بھی ان کی حمایت میں خوب مواد لکھ کر ان کو درست ثابت کرنے میں مدد کی . اس وجہ سے نئی نئی تھیسز آنا شروع ہو گئیں . کسی نے جمہوری سوشلزم کا نعرہ دیا تو کسی نے اسٹالنزم کہہ کر سوویت نظام کو رد کر کے ٹراٹسکی ازم کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی . جس کا کوئی ماڈل ہی نہیں ، پوری ایک صدی گزرنے کے بعد بھی کہیں اس کے تحت کوئی انقلاب نہیں آیا ، لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ کو درست کہتے رہے . سن دوہزار کے آتے آتے پھر اکیسویں صدی کے سوشلزم کی تھیسز بھی آئی . دراصل یہ تمام کی تمام تھیسز سوشل ڈیموکریسی یعنی پرامن طریقے سے سرمایہ داری کو انسانوں کے لئے قابل قبول بنانے کی ناکام کوششیں تھیں . یعنی پرانی شراب نئی بوتل میں پیش کرتے رہے . جو کمیونسٹ پارٹیاں ان راستوں پر چلیں وہ چاہے پاپولر ووٹ سے ہی اقتدار میں آئیں ، نظام کو ارتقائی عمل سے بتدریج سوشلزم لانے کی کوشش کرتی رہیں ، ان کو یا تو سامراج نے سازشوں کے زریعے اقتدار سے ہٹا دیا ، یا پرانی مشینری کو تبدیل نہیں کر سکے اور اس نے اٹھا کے باہر پھینک دیا ، یا عوام کو وہ نظام کچھ نہیں دے سکا کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں تھا ، اس وجہ سے عوام نے انہیں ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا . اکثر تو یہ بھی ہوا کہ عوام نے ری ایکشن میں مدے خارج رجعت پسند پارٹیوں کو حکومتیں دلائیں . یا پھر نیپال کی طرح عوام ایک اور بغاوت کرنے پر مجبور ہوئی .
ایران میں ڈاکٹر مصدق سے لیکر ، انڈونیشیا میں سوئیکارنو اور چلی میں صدر آلیندی کی جمہوری طریقے سے منتخب حکومتوں سے لیکر برازیل ، وینزویلا تک ، ارجنٹینا سے بولیویا تک اور اب نیپال میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرانے نظام کی قوتوں کو عوامی بغاوت کے ذریعے شکست دیکر نئی ریاستی مشینری کے ذریعے پرانے سیاسی و معاشی اور سماجی نظام کے اداروں کو توڑ کر ، ختم کرکے نئے نظام کو قائم کرنے سے ہی پرانے استحصالی نظام سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے . تب ہی سوشلسٹ نظام قائم کر کے انسانی سماج کی ترقی کے راستے کھولے جا سکتے ہیں . اس کے لئے انقلابی پارٹی کی تعمیر اور انقلاب کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سماج اور پارٹی میں مسلسل نظریاتی جنگ جاری رکھ کر ہی سوشلزم کو ترقی کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے .



أسباب الانتفاضة الشعبية في نيبال
بقلم: امداد قاضي

لفهم الاحتجاجات التي قام بها الشعب في نيبال، وخاصة الشباب، ضد الحكومة، ووصول الأمر إلى إحراق البرلمان ومقر رئاسة الوزراء، تعبيراً عن كراهية هذا النظام والسعي لإسقاطه، من الضروري أن نفهم طبيعة النظام الذي هُزم وأطاح به الشعب.
خصوصاً أولئك الذين يصفقون ويزعمون أن "الشيوعية قد فشلت" يجب أن يتوقفوا ويدققوا: نعم، من كانوا في السلطة هم الشيوعيون، لكن أي نظام كانوا يسيرون؟ وأي نظام هو ذاك الذي ثار الشعب ضده؟

1. النظام البرلماني المُعاد إنتاجه
بعد هزيمة الملكية، قامت الحزب الشيوعي (الماوي أو الموحد) بترسيخ نفس النظام البرلماني الذي كان قائماً بوجود الملك. أي النظام الذي جلب الفقر والبطالة وغلاء المعيشة. كان المطلوب إقامة نظام سياسي جديد بعد أن أسقطته انتفاضة الشعب، لكن ما حدث هو أنهم أزالوا الملك فقط، ومنحوا البرلمان سلطات أكبر في الدستور الجديد، ثم أعادوا تقديم نفس النظام بطلاء جديد.
في نظر الشعب، بقي النظام القديم على حاله لكن بغياب الملك وتحت قيادة أحزاب جديدة. وحتى النظام القبلي السابق بقي موجوداً، مع بعض التعديلات. لم تُعزز الإنتاجية الصناعية، ولم يُرفع من شأن الطبقة العاملة باعتبارها القوة الحقيقية للثورة الشعبية.
اليوم، الصناعة بما فيها إنتاج الكهرباء لا تمثل سوى 14٪ من الناتج المحلي، وتشغل فقط 15.1٪ من القوى العاملة. أما الزراعة (بما فيها الصيد البحري وتربية المواشي) فتشكل 25٪ من الناتج المحلي وتشغل 60.64٪ من القوى العاملة. أما قطاع الخدمات فحصته 5.20٪ فقط. والسؤال هنا: هل يمكن في ظل اقتصاد ما قبل الرأسمالية أن يُطبّق نظام سياسي رأسمالي؟

2. تناقضات ما بعد الاستعمار
مثل باقي دول ما بعد الاستعمار، كان النظام الاقتصادي في عهد الملك رأسمالياً، بينما بقي البناء الاجتماعي تقليدياً ما قبل رأسمالياً، تحميه حزب المؤتمر النيبالي الملكي. هذا النظام الاقتصادي، الذي شكل عائقاً أمام التطور الاجتماعي والاقتصادي للشعب، كان أساس الثورة التي قادتها فصائل الحزب الشيوعي النيبالي ضد الملك وحاشيته.
لكن بعد أكثر من 20 عاماً على تلك الثورة، لم يتغير النظام. بل استمرت سياسات الليبرالية الجديدة الاقتصادية، حتى بقيادة قوى كانت تدّعي التخطيط الاقتصادي. النتيجة الطبيعية كانت اندلاع انتفاضة شعبية جديدة. فالتناقضات الجوهرية في المجتمع لم تُحل، بل ازدادت سوءاً مع الفساد والمحسوبية الملازمين للنظام الرأسمالي، ما نخره من الداخل حتى انهار.
لا فرق إن كان في الحكم شيوعيون، فالنتيجة واحدة: هذا النظام السياسي والاقتصادي الرأسمالي فشل، ولهذا ثار الشعب ضده. ومن الممكن جداً أن عوامل خارجية ساهمت في تسريع هذا الانفجار.
الحزب الشيوعي الباكستاني، في وثائق مؤتمره لعام 2023، قدّم بالفعل تقييماً نقدياً لتجربة الشيوعيين في نيبال، محذراً من مآلاتها وفشلها الحتمي.

3. حدود الطريق البرلماني
علينا أن نفهم أن الوصول إلى السلطة عبر الانتخابات، ضمن النظام السياسي الرأسمالي (برلماني أو رئاسي)، لا يمكن أن يؤدي إلى تغيير حقيقي في حياة الشعب. في ظل البنية الاقتصادية الرأسمالية، استحالة إنهاء الاستغلال أو بناء الاشتراكية.
بعد الردة في الاتحاد السوفيتي، استغل الإصلاحيون والاشتراكيون الديمقراطيون الفرصة لتقديم أنفسهم كبديل، رافعين شعارات مثل "الاشتراكية الديمقراطية" أو "الاشتراكية في القرن الحادي والعشرين"، بينما في الحقيقة لم تكن سوى محاولات فاشلة لتزيين الرأسمالية. الأحزاب التي سارت في هذا الطريق، حتى لو وصلت للسلطة عبر صناديق الاقتراع، فشلت في بناء الاشتراكية تدريجياً، إذ أسقطها إما الاستعمار بمؤامراته، أو أطاح بها الشعب لأنها لم تحقق شيئاً ملموساً.
في حالات أخرى، صوت الشعب ضدها لصالح قوى رجعية، أو كما في نيبال، اضطر الشعب إلى انتفاضة جديدة.

4. الدروس المستخلصة من التجارب العالمية
من تجربة الدكتور مصدق في إيران، إلى سوكارنو في إندونيسيا، وآليندي في تشيلي، وصولاً إلى تجارب البرازيل، فنزويلا، الأرجنتين، بوليفيا، والآن نيبال، يتأكد درس واحد: لا يمكن الخلاص من الأنظمة الاستغلالية إلا عبر تحطيم مؤسسات النظام السياسي والاقتصادي والاجتماعي القديم بالكامل، وبناء نظام جديد مكانه.
فقط من خلال ثورة شعبية، وبناء حزب ثوري يقود الجماهير، يمكن إقامة سلطة جديدة تفتح الطريق أمام الاشتراكية. وبعد الاستيلاء على السلطة، يجب الحفاظ على الصراع الفكري والسياسي المستمر داخل الحزب والمجتمع، لضمان تقدم الاشتراكية.


Causes of the Popular Uprising in Nepal
By: Imdad Qazi

To understand the protests in Nepal—especially those led by the youth—against the government, including the burning of the parliament and the prime minister’s office as an expression of hatred for the system and the attempt to overthrow it, it is necessary to first understand the nature of the system that was defeated and uprooted by the people.
Particularly for those who are celebrating and claiming that “communism has failed,” it must be clarified: yes, it was communists who were in power. But what system were they running? And which system was it that the people actually rose up against?

1. The Reproduced Parliamentary System
After the monarchy was defeated, the Communist Party (Maoist or Unified) implemented the same parliamentary system that had existed under the king. This was the very system that had already brought poverty, unemployment, and inflation to the people. Instead of creating a new political system after overthrowing the monarchy, they merely removed the king, gave the parliament more powers in the new constitution, and re-polished the same structure.
Thus, in the eyes of the people, the same old system continued under new party leadership but without a king. The tribal order remained intact with minor adjustments. Industrial production was not increased, nor was the working class—the true force of a socialist or people’s democratic revolution—empowered.
Even today, industry (including electricity generation) contributes only 14% to GDP and employs just 15.1% of the workforce. Agriculture (including fisheries and livestock) accounts for 25% of GDP and employs 60.64% of the workforce. The services sector’s share is 5.20%. The question arises: can a capitalist political system truly function on a pre-capitalist economic foundation?

2. Contradictions of the Post-Colonial Order
Like most post-colonial countries, Nepal’s economic system under the monarchy was capitalist, while its social structure remained pre-capitalist, upheld by the royalist Nepali Congress Party. This economic system, which blocked social and economic progress, was the basis on which different factions of the Communist Party of Nepal organized the masses and launched a revolution against the king and his allies.
More than 20 years have passed since that revolution, yet the system has not changed. Instead, neoliberal economic policies continued, even under the leadership of those who claimed to stand for planned economy. The inevitable result was another popular uprising. The fundamental contradictions of society not only persisted but deepened with corruption and nepotism—features inherent to capitalism—that hollowed out the entire system like termites.
It makes no difference that communist parties were in government; the outcome was the same: this was the failure of the capitalist political and economic order, which triggered the uprising. It is also possible that external factors accelerated and organized this contradiction.
The Communist Party of Pakistan, in its 2023 Congress documents, had already carried out a critical evaluation of the Nepali experience and warned of this inevitable failure.

3. Limits of the Parliamentary Road
We must understand that simply gaining power through elections within the capitalist political system (whether parliamentary or presidential) cannot bring real change to the lives of the people. Within a capitalist economic structure, ending exploitation and building socialism is impossible.
After the counterrevolution in the Soviet Union, reformists and social democrats exploited the moment to promote new theses like “democratic socialism” or “socialism of the 21st century.” In reality, these were failed attempts to make capitalism appear acceptable. Communist parties that chose this path—even when they came to power through popular vote—failed to bring socialism gradually. They were either overthrown by imperialist conspiracies, blocked by old state machinery, or rejected by the people who saw no tangible results.
Often, people reacted by voting conservative or reactionary forces into power, or—as in Nepal—were compelled to launch another uprising.

4. Lessons from Global Experiences
From Dr. Mossadegh in Iran, to Sukarno in Indonesia, Allende in Chile, and experiences in Brazil, Venezuela, Argentina, Bolivia, and now Nepal, one lesson is clear: the forces of the old system can only be defeated through popular revolution and the creation of a new state apparatus that dismantles the old political, economic, and social institutions.
Only in this way can the exploitative order be abolished and a socialist system established, opening the path to human progress. This requires building a revolutionary party, seizing power through revolution, and maintaining continuous ideological struggle within the party and society to advance socialism.

नेपाल में जनविद्रोह के कारण
लेखक: इमदाद क़ाज़ी

नेपाल में जनता, विशेषकर युवाओं द्वारा सरकार के ख़िलाफ़ किए गए विरोध—संसद और प्रधानमंत्री निवास को आग लगाना, इस व्यवस्था के प्रति घृणा और इसे गिराने के प्रयास—को समझने के लिए यह ज़रूरी है कि पहले उस व्यवस्था को समझा जाए जिसे जनता ने पराजित कर उखाड़ फेंका।
जो लोग तालियाँ बजा रहे हैं और कह रहे हैं कि “कम्युनिज़्म असफल हो गया,” उन्हें यह समझना चाहिए: हाँ, सत्ता में कम्युनिस्ट ही थे, लेकिन वे किस व्यवस्था को चला रहे थे? और जनता ने असल में किस व्यवस्था के ख़िलाफ़ विद्रोह किया?

1. दोहराया गया संसदीय तंत्र
राजशाही की हार के बाद कम्युनिस्ट पार्टी (माओवादी या यूनिफ़ाइड) ने वही संसदीय व्यवस्था लागू की जो राजा के समय थी। वही व्यवस्था जिसने जनता को महँगाई, बेरोज़गारी और ग़रीबी दी थी। नया राजनीतिक ढाँचा बनाने के बजाय उन्होंने केवल राजा को हटाकर नए संविधान में संसद को अधिक अधिकार दिए और पुराने ढाँचे को थोड़ी चमक-दमक के साथ जारी रखा।
जनता की नज़र में यह वही पुरानी व्यवस्था रही, बस अब बिना राजा और नई पार्टियों की अगुवाई में। क़बीलाई ढाँचा पहले जैसा ही रहा, केवल कुछ बदलावों के साथ। औद्योगिक उत्पादन नहीं बढ़ाया गया, और न ही मज़दूर वर्ग—जो असली समाजवादी या जनवादी क्रांति की ताक़त है—को सशक्त किया गया।
आज भी उद्योग (बिजली उत्पादन सहित) जीडीपी का केवल 14% है और इसमें महज़ 15.1% मज़दूर कार्यरत हैं। कृषि (मछली पालन और पशुपालन सहित) जीडीपी का 25% और कुल कार्यबल का 60.64% हिस्सा है। सेवाक्षेत्र का हिस्सा केवल 5.20% है। सवाल उठता है: क्या पूँजीवादी राजनीतिक व्यवस्था, पूर्व-पूँजीवादी अर्थव्यवस्था पर टिक सकती है?

2. उपनिवेशोत्तर विरोधाभास
जैसे अधिकांश उपनिवेशोत्तर देशों में हुआ, नेपाल में भी राजशाही काल का आर्थिक ढाँचा पूँजीवादी था, लेकिन सामाजिक ढाँचा पूर्व-पूँजीवादी बना रहा, जिसे नेपाली कांग्रेस पार्टी ने बचाए रखा। यही ढाँचा जनता की सामाजिक-आर्थिक तरक़्क़ी में बाधा था। इसी विरोधाभास के आधार पर कम्युनिस्ट पार्टी के विभिन्न धड़े जनता को संगठित कर राजा और उसके समर्थकों के ख़िलाफ़ क्रांति लाए।
लेकिन 20 साल से ज़्यादा बीत जाने के बाद भी व्यवस्था में कोई बुनियादी बदलाव नहीं हुआ। उल्टा, योजनाबद्ध अर्थव्यवस्था का दावा करने वालों की अगुवाई में नव-उदारवादी नीतियाँ लागू रहीं। इसका नतीजा एक और जनविद्रोह होना ही था। समाज के मूल विरोधाभास कायम रहे और भ्रष्टाचार व भाई-भतीजावाद ने, जो पूँजीवाद की बुनियादी विशेषता है, पूरे सिस्टम को अंदर से खोखला कर दिया।
इससे फ़र्क़ नहीं पड़ता कि सत्ता में कम्युनिस्ट पार्टियाँ थीं, नतीजा वही रहा: यह पूँजीवादी राजनीतिक और आर्थिक व्यवस्था की नाकामी थी जिसके ख़िलाफ़ जनता ने विद्रोह किया। संभव है कि बाहरी कारकों ने भी इस विरोधाभास को और तेज़ कर दिया हो।
कम्युनिस्ट पार्टी ऑफ़ पाकिस्तान ने 2023 में अपनी कांग्रेस की दस्तावेज़ों में पहले ही नेपाल के अनुभव की आलोचनात्मक समीक्षा की थी और इसकी असफलता की भविष्यवाणी की थी।

3. संसदीय मार्ग की सीमाएँ
हमें समझना होगा कि पूँजीवादी राजनीतिक ढाँचे (चाहे संसदीय हो या राष्ट्रपति प्रणाली) के भीतर चुनावों के ज़रिए सत्ता में आकर जनता की ज़िंदगी नहीं बदली जा सकती। पूँजीवादी आर्थिक संरचना में शोषण का अंत और समाजवाद का निर्माण असंभव है।
सोवियत संघ में पलटवार के बाद, सुधारवादी और समाज-लोकतांत्रिक नेताओं ने “लोकतांत्रिक समाजवाद” या “इक्कीसवीं सदी का समाजवाद” जैसे नारे दिए। असल में यह पूँजीवाद को स्वीकार्य बनाने की असफल कोशिशें थीं। जिन कम्युनिस्ट पार्टियों ने यह रास्ता चुना, वे चाहे वोट से सत्ता में आई हों, लेकिन धीरे-धीरे समाजवाद नहीं ला सकीं। उन्हें या तो साम्राज्यवाद ने गिरा दिया, या पुरानी राज्य मशीनरी ने रोक दिया, या जनता ने हटा दिया क्योंकि नतीजे नहीं मिले।
अक्सर जनता ने प्रतिक्रिया में दक्षिणपंथी या प्रतिक्रियावादी ताक़तों को सत्ता में पहुँचा दिया, या फिर नेपाल की तरह, नया विद्रोह किया।

4. वैश्विक अनुभवों से सबक
ईरान में डॉक्टर मोसद्दिक, इंडोनेशिया में सुकर्णो, चिली में आयेंदे, और ब्राज़ील, वेनेज़ुएला, अर्जेंटीना, बोलीविया और अब नेपाल तक का अनुभव यह बताता है कि पुराने सिस्टम की ताक़तों को केवल जनविद्रोह के ज़रिए हराया जा सकता है।
पुरानी राजनीतिक, आर्थिक और सामाजिक संस्थाओं को तोड़कर ही एक नई राज्य मशीनरी बनाई जा सकती है। तभी शोषणकारी व्यवस्था से मुक्ति मिलेगी और समाजवाद स्थापित होगा, जिससे मानव समाज की प्रगति के रास्ते खुलेंगे।
इसके लिए ज़रूरी है कि एक क्रांतिकारी पार्टी का निर्माण हो, जो क्रांति के ज़रिए सत्ता हासिल करे और पार्टी व समाज में लगातार वैचारिक संघर्ष जारी रखकर समाजवाद को आगे बढ़ाए।


ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

إعلان في أسفل التدوينة

إتصل بنا

نموذج الاتصال

الاسم

بريد إلكتروني *

رسالة *